پاکستانی کرکٹ ٹیم نے جس انداز میں آسٹریلیا کے خلاف شدید دباؤ میں کراچی ٹیسٹ ڈرا کیا اس کی دنیا بھر میں تعریف ہو رہی ہے۔ میچ کے چوتھے روز جب 506 رنز کا بڑا ہدف ملا تو بہت سے لوگوں نے اپنا فیصلہ جاری کر دیا تھا کہ فتح ابھی دور ہے، اگر پاکستانی ٹیم میچ بچا بھی لے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ وکٹ ہاتھ میں ہوتی تو پاکستان نئی تاریخ رقم کر سکتا تھا۔ سب سے بڑھ کر کراچی کے تماشائیوں کو اچھی کرکٹ سے لطف اندوز ہونا تھا۔
پانچ دنوں کے دوران شائقین کی اچھی خاصی تعداد کے لیے انتظامات بھی آئی پی ایس ایل سے بہتر تھے لیکن اگر پی سی بی باکس آفس پر ٹکٹوں کی فروخت شروع کر دے تو شائقین کی بڑی تعداد گراؤنڈ میں آسکتی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں شائقین کرکٹ میچوں کے ٹکٹ خریدنے کے لیے تیار ہیں لیکن ٹکٹوں کی فروخت کے طریقہ کار کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی آج ہمارے تماشائی اتنے ہائی ٹیک نہیں ہیں کہ وہ آن لائن ٹکٹ خرید سکیں۔ اسٹیڈیم کے باہر بوتھ لگا کر سسٹم کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ بائیں ہاتھ کے اسپنر آصف آفریدی اور وکٹ کیپر بلے باز محمد حارث کو قومی اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ دونوں کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارکردگی پر قومی سکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔
آصف آفریدی نے حال ہی میں ختم ہونے والے پی ایس ایل 7 کے 5 میچوں میں eight وکٹیں حاصل کی تھیں جب کہ محمد حارث نے 5 میچوں میں 166 رنز بنائے تھے۔ انہوں نے اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں جاری پاکستان کپ کے 7 میچوں میں 219 رنز بنائے ہیں۔ ان کی ٹیم کے اسپنر آصف آفریدی بھی اس ایونٹ میں اب تک 7 وکٹیں لے چکے ہیں۔ اگر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
محمد حارث نے پی ایس ایل میں پشاور زلمی کی جانب سے کئی تیز اننگز کھیلی تھیں لیکن انہیں اپنی وکٹ کیپنگ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ محمد نواز مکمل طور پر فٹ ہیں اس لیے انہیں وائٹ بال سیریز کے لیے قومی اسکواڈ میں شامل کیا گیا۔ ون ڈے ٹیم میں سعود شکیل کا نام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ پاکستان ٹیم میں سعود شکیل کو بھی موقع دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ وہ ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود الیون میں آنے میں ناکام رہے ہیں۔ سعود شکیل ایک باصلاحیت بلے باز ہے جس کی تکنیک بہت اچھی ہے اس لیے سعود شکیل کو کھلایا جائے اور ان کی صلاحیتوں کو جانچا جائے۔
وائٹ بال ٹیم میں سب سے حیران کن ایگزٹ اوپنر شان مسعود کا ہے۔ ٹیسٹ ٹیم میں امام الحق کو ان پر ترجیح دی گئی۔ امام الحق نے پنڈی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں اسکور کیں۔ ان کو نظر انداز کرنا سمجھ سے باہر ہے۔ اگر انہیں اوپن نہیں کیا جا سکتا تو وہ مڈل آرڈر میں کھیل سکتے ہیں۔
شان مسعود قومی سیزن میں تینوں فارمیٹس کھیلتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں اس سال کاؤنٹی میں کنٹریکٹ ملا ہے لیکن ہمارے سلیکٹرز شان مسعود کی سلیکشن پر متفق نظر نہیں آتے حالانکہ وہ پی ایس ایل اور قومی ٹورنامنٹس میں لاتعداد میچز کھیل چکے ہیں۔ جیت کی اننگز کھیلی۔ رمیز راجہ کو سلیکشن کے معاملات بھی دیکھنا ہوں گے تاکہ کھلاڑیوں کو انصاف مل سکے۔