پورٹ قاسم نے اپنی کرکٹ اور ہاکی ٹیمیں بحال کر دیں۔ اسی طرح ڈی اے نے اپنی کرکٹ اور ہاکی ٹیموں کی تشکیل کا اعلان کیا اور کھلاڑیوں میں تقرری نامہ تقسیم کیا۔ یہ فیصلہ کراچی میں وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ کی زیر صدارت ڈی اے گورننگ باڈی کے اجلاس میں کیا گیا۔ یہ دونوں خبریں کھلاڑیوں کے لیے ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہیں اور کھلاڑی اس امید پر بیٹھے ہیں کہ نئی حکومت محکموں کو دوبارہ اپنی ٹیمیں بنانے کا کہے گی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما رانا مشہود نے بھی محکمانہ ٹیموں کو بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان میں کھیلوں اور بالخصوص کرکٹ میں بہتری کا امکان ہے۔ آسٹریلوی طرز کے نظام کے اثرات جو تین سال قبل متعارف کرائے گئے تھے ابھی تک ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ پی سی بی نے اسکروٹنی کے لیے اکاؤنٹنگ فرم پی ایم جی تاثیر ہادی اینڈ کمپنی کی خدمات حاصل کی ہیں۔ سکروٹنی کا عمل ضلع قصور سے شروع ہوگا جہاں یکم سے four جون تک کل 50 کلبوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
تمام چھ کرکٹ ایسوسی ایشنز میں سکروٹنی کا عمل چار ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں 4022 کلبوں نے رجسٹریشن کے لیے درخواستیں جمع کروائی تھیں جو کہ تیسرے مرحلے میں کم ہو کر 3644 رہ گئی ہیں۔ان 3644 میں سے 813 کلبوں کا تعلق خیبر پختونخوا، 770 کا وسطی پنجاب، 617 کا سندھ، 502 کا جنوبی پنجاب، 482 کا تعلق بلوچستان اور 482 کا ہے۔ 460 سے شمالی۔ اس نظام کو کیسے کامیاب کہا جا سکتا ہے جہاں تین سالوں میں کلبوں کی چھان بین نہیں ہوئی اور پھر بھی ایسوسی ایشن کے عہدیدار عارضی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین عبدالحفیظ کاردار نے ڈپارٹمنٹل ٹیمیں شروع کرکے ایک تاریخی فیصلہ کیا تھا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ پھر تین سال قبل احسان مانی نے چیئرمین بننے کے بعد محکمانہ ٹیمیں بند کر دیں۔ اداروں پر مبنی فرسٹ کلاس کرکٹ کا نظام پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے سربراہ عبدالحفیظ کاردار نے شروع کیا تھا جس کے تحت ملک کے تمام بڑے بینکوں اور پی آئی اے وغیرہ نے اپنی کرکٹ ٹیمیں بنا کر نہ صرف کھلاڑیوں کو روزگار فراہم کیا بلکہ انہیں روزگار بھی فراہم کیا۔ کھیلنے کے بہترین مواقع بھی فراہم کیے گئے۔
یہ ادارے پاکستان کی کرکٹ میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے لیکن حالیہ برسوں میں ملکی معاشی صورتحال کے باعث مختلف اداروں کی ٹیمیں معدوم ہونے لگیں۔ اس صورتحال میں سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب عمران خان برسراقتدار آئے اور انہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ کو فرسٹ کلاس کرکٹ کے فریم ورک سے نکال کر علاقائی یا صوبائی سطح پر ڈومیسٹک کرکٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ مئی 2019 میں، عمران خان کے کہنے پر، جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے چھ ایسوسی ایشنز کی ٹیموں کے لیے فرسٹ کلاس کرکٹ کا ڈھانچہ ترتیب دیا تو پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں آٹھ اداروں کی ٹیمیں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہی تھیں۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جہاں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں وہیں پاکستان کا ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم بھی موضوع بحث بن گیا ہے۔ کیا اسے اس کی اصل شکل میں بحال کیا جا سکتا ہے؟ یہ کام نہ تو آسان ہے اور نہ ہی آسان کیونکہ پرانے نظام پر واپس آنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر موجودہ فرسٹ کلاس ڈھانچے میں ان کرکٹرز کو کھیلنے کے مواقع کے ساتھ ساتھ اچھا معاوضہ بھی مل رہا ہے تو پھر ادارہ جاتی کرکٹ کی بحالی کا مطالبہ کیوں زور پکڑ رہا ہے۔
پی سی بی کے آئین میں تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ کام مشکل نظر آتا ہے۔ پی سی بی کے سابق چیئرمین احسان مانی نے کہا ہے کہ موجودہ کرکٹرز کو ایک سسٹم کے تحت کرکٹ کھیل کر معاوضہ دیا جا رہا ہے حتیٰ کہ سابق کرکٹرز کو بھی میچ ریفری امپائرنگ اور کوچنگ میں آنے کا کہا گیا ہے اور ان میں سے بہت سے اب ان ایسوسی ایشنز میں شامل ہیں۔ ٹیم کے کوچز ہیں۔ کلبوں کی بھی چھان بین کی گئی جس سے معلوم ہوا کہ 25% کلب فراڈ تھے۔
ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اس فراڈ کو ختم کرنے کے لیے لائیو سکورنگ کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ شاید احسان مانی کے یہ الفاظ حقائق سے کوسوں دور ہیں۔ نئے نظام سے چند سو کرکٹرز کو فائدہ ضرور ہوا ہے لیکن سینکڑوں ایسے بے روزگار ہو گئے ہیں جن کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ دو چھوٹے محکموں کی بحالی کافی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت معاشی بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں اداروں کی ٹیموں کو بحال کرنا آسان نہیں لیکن ناممکن نہیں۔