وہی فنکار جو شو بزنس میں طویل فنی سفر طے کرتے ہیں، جو اپنے کام سے محبت کرتے ہیں۔ میٹھی اور سریلی آواز کانوں میں رس گھول دیتی ہے۔ بہت کم ایسے گلوکار ہیں جنہوں نے ہر طرح کی گائیکی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ سدا بہار اور تجربہ کار گلوکار سجاد علی کو کون نہیں جانتا۔ وہ پاکستانی موسیقی کے بہت مقبول گلوکار ہیں۔ قدرت نے انہیں نہایت رسیلی، جادوئی آواز سے مالا مال کیا ہے۔ وہ گزشتہ 40 سالوں سے موسیقی کی مختلف اصناف میں اپنا نام بنا رہے ہیں۔
سجاد علی نے کم عمری میں ہی گانا شروع کر دیا تھا۔ اب تک ان کے درجنوں آڈیو البمز ریلیز ہو کر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ اس کا پہلا البم 1979 میں ریلیز ہوا۔ بعد میں اس کے کئی آڈیو البم ریلیز ہوئے اور بہت مقبول ہوئے۔ جن میں گولڈز ازنات اولڈز، بے بیا، چیف، موڈی، ایک اور لوسٹو، سوہنی لگدی، سنڈریلا، تیری یاد، کچھ بھی، رنگ اور بارش شامل ہیں۔ سجاد علی نے اپنے مقبول ٹیلی ویژن پروگرام ’’سلور جوبلی‘‘ سے قومی شہرت حاصل کی۔
انہوں نے نہ صرف موسیقی کی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ بطور ہدایت کار، پروڈیوسر اور نغمہ نگار بھی اپنے جوہر دکھائے۔ انہوں نے چار فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی جن میں ایک اور لو سٹوری، لولیتا، آئی وانٹ اے مون اینڈ جیو اور شعیب منصور کی سپرہٹ فلم ’’بول‘‘ شامل ہیں جبکہ دو فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔ وہ دو تین فلموں میں بطور اداکار نظر آئے۔ ’’اے لو اسٹوری‘‘ میں انہیں بطور ہیرو بہت پسند کیا گیا۔ ان کے گانے “ہر ظلم تیری یاد ہے” اور بارش نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ بارش کی ویڈیو میں اداکارہ ریما نے کافی عرصے بعد کام کیا۔
سجاد علی کا تعلق فنکار گھرانے سے ہے۔ ان کی والدہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہیں، جب کہ ان کے والد ایک شریف آدمی، اداکار اور کرکٹر رہے۔ ان کے دو بھائی وقار علی اور لکی علی موسیقی کی دنیا میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ سجاد علی گزشتہ چھ سات سال سے دبئی میں مقیم ہیں۔ تاہم وہ شوز اور کنسرٹس کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ اب وہ اپنا زیادہ وقت لاہور میں گزارتے ہیں۔ حال ہی میں جب وہ پاکستان تشریف لائے تو ہماری ان سے مختصر گفتگو ہوئی جس کی تفصیلات قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں۔

س: گائیکی کا سفر کب شروع ہوا؟
A: میں نے چھ یا سات سال کی عمر میں گانا شروع کر دیا تھا۔ تایا نے مجھے پہلی بار گانے کے لیے کہا، اس وقت میری پرفارمنس کے بعد انھوں نے کہا کہ یہ لڑکا موسیقی کی دنیا میں بہت آگے جائے گا، پھر وقت نے اسے سچ کر دکھایا۔
س: گلوکاری کے شعبے میں آپ کو قومی پہچان کب ملی؟
A: مجھے پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور پروگرام ’’سلور جوبلی‘‘ میں اپنی پرفارمنس کا دن ہمیشہ یاد رہے گا۔ 26 نومبر 1983 جب میں نے دو گانے ’’لگی رے لگان یہ دل میں‘‘ اور ’’بنوری چکوری کرے دنیا سے چوری‘‘ گائے تو یہ گانے پورے ملک میں مقبول ہوئے۔ اس کے بعد میں نے دھنیں گائیں، لیکن مجھے پاپ گانے بہت پسند تھے۔ 1993 میں البم “بیا” ریلیز ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ میں موسیقی کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ میں شاید پہلا پاکستانی گلوکار ہوں جس نے کلاسیکل سے پاپ گانے کی طرف قدم بڑھایا۔ شروع میں مجھے سنجیدہ گلوکار سمجھا جاتا تھا۔
اس کے باوجود میں نے ہر طرح کے گانے گائے اور بچے بوڑھے اور جوان جو ان سب کے لیے کچھ نہ کچھ نیا کرتے رہے۔ میرے پاپ میوزک البمز اس سے پہلے بھی ریلیز ہو چکے تھے لیکن ’’بی بیا‘‘ سب سے زیادہ مقبول تھا۔ مجھے میوزک کمپنی کی طرف سے اکثر کہا جاتا تھا کہ آپ کو صرف دھنیں اور فلمی گانے گانا چاہیے۔ مجھے غلط مت سمجھو، پاپ میوزک۔ میرے خیال میں اصل گلوکار ہر قسم کے گانے، غزل، کلاسیکی اور نیم کلاسیکی گائیکی پرفارم کر سکتا ہے۔
س: آپ موسیقار، نغمہ نگار اور گلوکار ہیں، نئے گانے کمپوز کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھتے ہیں؟
A: میں شروع سے ہی کچھ نیا کرنے کا عادی ہوں۔ روٹین کام نہیں کرتی۔ ’’لاری اڈا‘‘ جیسے گانے اب میری طرف سے نہیں گائے جاتے۔ اب میرے گانوں کا ایک خاص مقصد ہے۔ میں اپنے سامعین کے لیے موضوع تلاش کرتا رہتا ہوں۔ موسیقی اور آرٹ کا مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا اور سماجی ناہمواریوں کو اجاگر کرنا ہے۔
میں آج کی موسیقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ اسی لیے وقتاً فوقتاً میرے گانے ریلیز ہوتے رہتے ہیں۔ میں اپنے گانوں کو دلچسپ اور دلکش بنانے کے لیے تحقیق اور مطالعہ کرتا ہوں۔ گھر میں کتابوں کی لائبریری ہے۔ مختلف موضوعات پر سینکڑوں کتب پر مشتمل ہے۔ موسیقی میرا کام ہے، لیکن میں زیادہ تر مذہبی کتابیں پڑھتا ہوں۔ تاریخ اسلام میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ اسلام کی تاریخ جو مسلمانوں کے شاندار اور شاندار کارناموں سے بھری پڑی ہے۔
س: دبئی کی زندگی کیسی ہے، کیا آپ کو کراچی اور لاہور یاد ہیں؟
A: میں نے دبئی میں قیام کا فیصلہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے اپنے پیاروں اور عزیزوں کو پیچھے چھوڑ کر آیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پاکستان کا نام روشن کریں۔ میری دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ میں اپنے خاندان کے ساتھ دبئی میں پرسکون زندگی گزار رہا ہوں۔ میں کراچی اور لاہور کے اپنے دوستوں کو بہت یاد کرتا ہوں۔
لیکن زیادہ تر میں ان سے ملتا ہوں، کیونکہ میں کبھی کراچی جاتا ہوں، کبھی لاہور اور کبھی اسلام آباد شوز کے لیے۔ پاکستان پوری دنیا میں میری پہچان ہے۔ موسیقی میرا بستر ہے۔ رشتہ کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔ میں دبئی میں مقیم ہندوستان اور پاکستان کے نوجوانوں کو موسیقی کی تعلیم دیتا رہا ہوں۔ میری اکیڈمی کی طرف سے جواب اچھا تھا۔ میرے بہت سے طالب علم موسیقی میں اپنا نام بنا رہے ہیں۔ موسیقی ایک ہنر ہے، یہ علم ہے اور آپ اسے سیکھے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ میں شوز کے لیے امریکہ کی مختلف ریاستوں میں بھی جاتا ہوں۔ جہاں میں بڑے پیمانے پر کنسرٹس میں پرفارم کرتا ہوں وہیں برطانیہ اور لندن بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔
س: میں انڈیا گیا اور ایک گانے کی ویڈیو بنائی۔ کیا اس کے بعد دوبارہ وہاں کوئی ویڈیو نہیں بنائی؟
A: موسیقی کے بارے میں میری سوچ بہت آگے ہے۔ میں نے بہت پہلے اندازہ لگایا تھا۔ موسیقی کہاں جا رہی ہے؟ میں ایسے وقت میں ہندوستان آیا جب میں اپنے مقبول گانے ’’سوہنی لگدی‘‘ کی ویڈیو بنا رہا تھا جب دونوں ملکوں کی سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے۔
اب صورتحال بہت بدل چکی ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ انڈیا جا کر گانے کی ویڈیو بنانا میری غلطی تھی۔ اس لیے وہ دوبارہ وہاں نہیں گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں اچھا پاپ میوزک نہیں ہے۔ وہ صرف فلمی موسیقی چلا رہے ہیں۔
س: ذہن میں فلم بنانے کا خیال کیوں آیا؟
A: میں فلموں کے ذریعے میوزک ویڈیوز بنانے کا تجربہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ بطور پروڈیوسر اور ڈائریکٹر میں نے فلم ’’ایک اور محبت کی کہانی‘‘ بنائی جس کی کاسٹ میں میرے علاوہ اداکارہ نرما، سائرہ، سلیم شیخ اور بہروز سبزواری شامل تھے۔ میرے تین گانوں کے علاوہ شہزاد رائے کا گانا ’تیرا کنگنا جب‘ بھی شامل تھا۔
فلم کے ساتھ میرا تجربہ بہت کارآمد ثابت ہوا۔ لوگوں نے سینما گھروں کا رخ کیا۔ یہ فلم 1998 میں ریلیز ہوئی جس کی کامیابی نے ثابت کر دیا کہ اگر فلم کو موسیقی کو ذہن میں رکھ کر بنایا جائے تو لوگ سینما گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ اب نئے اور جدید سینما گھر ہیں۔ اچھی اور معیاری فلمیں ضرور چلیں گی۔ جیسے شعیب منصور نے ’’خدا کے واسطے‘‘ اور ’’بول‘‘ بنایا۔ فلموں میں اچھے میوزک کی بہت ضرورت ہے۔ میری اصل پہچان موسیقی ہے۔ میری ساری توجہ اس پر ہے۔ میں نے مداحوں کی محبت میں اداکاری شروع کی۔
س: پاکستان میں اب میوزیکل کنسرٹس بہت کم ہوتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟
A: ایک وقت تھا جب کراچی میں بیک وقت موسیقی کے بہت سے پروگرام ہوتے تھے۔ ایک فنکار نے کئی شوز میں پرفارم کیا۔ اب کمرشل پروگرام مکمل طور پر بند ہیں۔ کچھ بڑے تجارتی پروگرام ہیں۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی تو کورونا نے سب کچھ روک دیا۔
س: آپ کے پسندیدہ گلوکار کون ہیں؟
A: میں تمام سریلی گلوکاروں کو دل سے سنتا ہوں اور ان کے کام کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں مہدی حسن، ملکہ ترون نور جہاں اور بڑے غلام علی کے گائے ہوئے گیت اور بول سنتا ہوں۔ کسی ایک پسندیدہ گلوکار کا نام بتانا مشکل ہے۔
س: دنیا بھر میں شہرت حاصل کی، یہ سب کچھ کیسا لگتا ہے؟
A: میں نے کم عمری میں ہی بے پناہ شہرت حاصل کی۔ میں جہاں بھی گیا اپنے پیارے سے ملا، میں نے کبھی شہرت کے نشے کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ یہ سریلی آواز اور لوگوں کی محبت سب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔
س: موسیقی کے علاوہ آپ کے مشاغل کیا ہیں؟
A: جیسے میرے والد کرکٹر تھے۔ ان کی وجہ سے مجھے کرکٹ کا بھی بہت شوق ہے۔ میں ٹیلی ویژن پر پاکستان کے میچز خوشی سے دیکھتا ہوں اور بہت لطف اندوز ہوتا ہوں۔ پاکستانی ٹیم اب بہتر ہے۔
س: ہمارے پاکستانی معاشرے میں فنکاروں کی کتنی قدر کی جاتی ہے؟
A: بہت قیمتی، وقت بدل گیا ہے۔ پڑھے لکھے گھرانوں کی لڑکیاں اور لڑکے شو بزنس کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ ایک زمانے میں جب ہم کہیں جاتے تو وہ ہم سے پوچھتے کہ تم کیا کرتے ہو، جواب میں ہم کہتے، گاؤ۔
ان کا ایک ہی سوال تھا کہ گانا گانا ہے۔ لیکن تم کیا کرتے ہو؟ جواب میں ہم خاموش ہو جاتے۔ میری بیٹی نے کوک اسٹوڈیو سے گایا، اس کی آواز کو بہت سراہا گیا۔