پاکستان سپر لیگ کا میلہ اب اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ کراچی میں تماشائیوں کی تعداد کم تھی لیکن لاہور میں صوفی تماشائیوں کو میچ دیکھنے کی اجازت دی گئی اور وہ بھرپور جوش و خروش دکھا رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم عمران خان بھی فائنل دیکھنے قذافی اسٹیڈیم آرہے ہیں۔
عمران خان کے لیے یہ گراؤنڈ نیا نہیں ہے۔ اپنے آبائی شہر کے اس گراؤنڈ میں انہوں نے لاتعداد کلب، فرسٹ کلاس، ٹیسٹ اور ون ڈے میچز کھیلے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم سٹیڈیم کا دورہ کیا۔ وہ اب بھی اس کھیل کے بارے میں پرجوش ہے جس نے اسے پوری دنیا میں مشہور کیا۔ سیاست میں قدم رکھ کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔ فائنل کے بعد جب عمران خان کی فاتح کپتان کو ٹرافی سونپنے کی تصویر پوری دنیا کے میڈیا میں شائع ہو گی تو وہ منظر واقعی کچھ اور ہو گا۔
میری ذاتی رائے میں عمران خان کو اپنے مصروف شیڈول میں سے وقت نکال کر انٹرنیشنل میچ دیکھنے گراؤنڈ میں آنا چاہیے تھا۔ کرکٹ کے وہ آئیکون کون ہیں جنہیں پوری دنیا میگا اسٹارز کے نام سے جانتی ہے۔ دلچسپی لینا اور رمیز راجہ کو پی سی بی کا چیئرمین بنانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بہت بلندیوں پر جائے گی، گراس روٹ کرکٹ اور اس کی خامیوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے خاتمے کے بعد ایسوسی ایشن کی 6 ٹیمیں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہی ہیں لیکن انہیں اس نظام کے ثمرات نظر نہیں آ رہے۔ جب تک کلب کرکٹ کو آسان اور فعال نہیں بنایا جاتا یہ نظام کامیاب نہیں ہوسکتا۔ فی الحال کلبوں کی جانچ پڑتال کا طریقہ کار اتنا پیچیدہ ہے کہ کلبوں کی رجسٹریشن مشکل ہے۔ کرکٹ عام آدمی کا کھیل اور قوم کے دل کی دھڑکن ہے۔ اس گیم کے سسٹم کو سادہ اور آسان بنایا جائے تاکہ اس کے اثرات گیم اور کھلاڑی تک پہنچ سکیں۔
مجھے نیا نظام بنانے والوں کی نیت پر شک نہیں لیکن اس نظام کو فول پروف بنائے بغیر کامیابی کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ پاکستان سپر لیگ کی بات کریں تو اس ٹورنامنٹ میں کراچی کنگز کی کارکردگی واقعی مایوس کن ہے۔ وسیم اکرم، بابر اعظم نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے بڑے نام ہیں۔ برا کراچی 30 ملین کی آبادی والا شہر ہے۔
اس بار کراچی کنگز پی ایس ایل میں وہ کردار ادا کر رہی ہے جو اس سے پہلے قلندرز کا ٹیگ بن چکا تھا۔ لگتا ہے وسیم اکرم بابر اعظم اور شرجیل خان کو سات بلے بازوں کے برابر سمجھتے ہیں لیکن جدید ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے تقاضے مختلف ہیں۔ فرنچائز کرکٹ میں ٹیم بنانا ایک مشکل کام ہے۔ کنگز کو اس بار ایک نئے کپتان اور نئے کوچ کے ساتھ آنا تھا، اس لیے امکان ہے کہ ان اہم تقرریوں میں الجھی انتظامیہ نے ڈرافٹ کے دوران کچھ بنیادی غلطیاں کی ہوں، جن کا خمیازہ اب بھگتنا پڑ رہا ہے۔
خاص طور پر عماد وسیم کو کپتانی سے ہٹانا شاید کنگز کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ سابق پاکستانی کپتان وسیم اکرم اور کراچی کے کپتان بابر اعظم کی تھنک ٹینک میں ہونے والی گفتگو نے وہ منظر محفوظ کر لیا جس میں وسیم اکرم کافی مایوس اور ناراض نظر آئے۔ وسیم اکرم اور بابر اعظم کی گفتگو کا یہ منظر فوراً ہی سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگا اور طرح طرح کے تبصرے ہونے لگے کہ وسیم اکرم بابر اعظم کو ڈانٹ رہے ہیں اور انہیں ایسا بالکل نہیں کرنا چاہیے تھا۔
تاہم وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ بابر اعظم کو ڈانٹنے میں کوئی صداقت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے صرف بابر اعظم کو کہا کہ وہ جا کر اپنے باؤلرز کو بتائیں کہ وہ بلے بازوں کو یارکر کیوں نہیں بنا سکتے۔ کیا اسے یارکر بنانا نہیں آتا؟ ‘یاد رہے کہ جب وسیم اکرم بابر اعظم سے یہ کہہ رہے تھے تو 19ویں اوور میں انگلینڈ کے کرس جارڈن کی بری طرح پٹائی ہوئی تھی اور اس اوور میں خوش دل شاہ نے دو چھکے اور ایک چوکا لگایا تھا۔ وسیم اکرم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
جب کرس جارڈن 19واں اوور کرنے آئے تو ملتان سلطانز کو جیت کے لیے دو اوورز میں 29 رنز درکار تھے لیکن اس مہنگے اوور کی وجہ سے آخری اوور میں ملتان سلطانز کی فتح صرف نو رنز کی دوری پر تھی۔ وسیم اکرم کراچی کنگز کے صدر ہیں۔ پے در پے شکستوں کے بعد کوچ کی موجودگی میں ان کا ردعمل مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر کسی کھلاڑی کو ڈانٹنا پڑے تو اس کے لیے ڈریسنگ روم موجود ہے۔ دو گیندوں کے بعد بہرحال میچ ختم ہوگیا۔ وسیم اکرم کا باؤنڈری پر جانا اور کپتان سے گڑبڑ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے؟