ناسا نے نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کے سیاروں کی کھوج کے لیے اپنا 12 سالہ خلائی جہاز لانچ کیا ہے۔ یہ خلائی جہاز مشتری کے سیاروں کی اہم معلومات اور تصاویر زمین پر بھیجے گا۔ اپنے مدار میں جانے والے تحقیقی خلائی جہاز کے مشن کا نام ’’لوسی‘‘ ہے۔ یہ مشن مشتری کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کے مجموعے کے بارے میں معلومات اکٹھا کرے گا، جسے “ٹروجن” کلسٹر کا نام دیا گیا ہے۔ خلائی جہاز کو ایٹلس فائیو راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا ہے۔ یہ مشن کیپ کینورل سے روانہ کیا گیا تھا۔
اگر لوسی خلائی جہاز بغیر کسی حادثے یا تکنیکی خرابی کے اپنا سفر جاری رکھے تو اسے مشتری تک ٹروجن کے مشن کو مکمل کرنے میں کم از کم 12 سال لگیں گے۔ سائنسدانوں کے مطابق ٹروجن کی ساخت سے حاصل ہونے والی معلومات سے نظام شمسی میں بیرونی سیاروں کی تشکیل کی وضاحت ہو سکتی ہے۔
اس تمام سفر کے دوران خلائی جہاز شمسی توانائی سے چلایا جائے گا۔ لوسی خلائی مشنوں میں پہلا خلائی جہاز ہے جس نے ایک ہی مشن میں سب سے زیادہ فلکیاتی اشیاء کے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ لوسی نظام شمسی میں اتنی دور کی منزل تک پہنچنے کے لیے شمسی توانائی کا استعمال کرنے والا پہلا خلائی جہاز بھی ہوگا۔
ناسا کے مشن لوسی کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر تھامس زوربیشن کا کہنا ہے کہ ٹروجن سیاروں کا ہر حصہ ایک قدیم فلکیاتی جسم ہے اور اپنی اصل شکل میں موجود ہے اور ان سے حاصل ہونے والی معلومات کا تعلق نظام شمسی کی تشکیل سے ہے۔ یہ قیاس کیا گیا ہے کہ ان اجزاء میں کاربن مرکبات کی کثرت ہوتی ہے اور ان مرکبات کا مطالعہ کرکے سائنس دان یہ سمجھ سکیں گے کہ نامیاتی مادے کی تشکیل کیسے ہوئی اور زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔
لوسی کا نام 1974 میں ایتھوپیا میں دریافت ہونے والے انسان سے پہلے کے فوسل کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ فوسل مشہور ماہر حیاتیات ڈونلڈ جوہانسن نے دریافت کیا تھا۔ اس مشن میں لوسی سائنسدانوں کو نظام شمسی میں قدیم ترین مادّہ دریافت کرنے میں بھی مدد فراہم کر سکیں گی۔ زمین کے چاند اور مریخ کے بعد، خلائی فتح میں ناسا کا اگلا ہدف زہرہ ہے۔ معلومات اکٹھا کرنے کا کام 2027 میں شروع ہو سکتا ہے اور باقی معلومات کا مشن 2033 میں مکمل ہو جائے گا۔
مشن مکمل کرنے کے بعد لوسی زمین پر واپس آنے والا پہلا خلائی جہاز ہوگا۔ ٹروجن سیارے کے ہزاروں چھوٹے بڑے حصے ہیں۔ ٹروجن کلسٹر کی دریافت 1906 میں جرمن ماہر فلکیات میکس وولف نے شروع کی تھی۔